عنایت اللہ التمش کی کرشمہ ساز و سحر انگیز شخصیت تھی جس نے 70 
اور 80 کی دہائیوں میں ماہنامہ حکایت کو پاکستان کا مقبول ترین پرچہ بنا دیا تھا۔ وہ دن میں اٹھارہ گھنٹے لکھتے تھے۔ سچی اور حقیقی زندگی کی کہانیوں کی تلاش میں انہوں نے ملک کے طول و عرض کا سفر کیا اور اردو ادب کو افسانے کی نئی جہتوں سے متعارف کروایا۔ ماہنامہ حکایت کے مختلف سلسلوں کے لیے وہ خود نت نئے ناموں سے لکھتے تھے۔ مثلاً تاریخی سلسلہ وار ناولوں کے لیے انہوں نے عنایت اللہ، التمش اور وقاص کے نام چنے۔ افسانے اور چاردیواری کی دنیا سے ملنے والی کہانیاں وہ عنایت اللہ، مہدی خاں یا گمنام خاتون کے نام سے لکھتے۔ نفسیات کے سلسلے کے لیے وہ میم الف تھے۔ جاسوسی کہانیوں کے لیے وہ احمد یار خان بن جاتے جبکہ شکاریات کے سلسلے کو چلانے کے لیے ان کا قلم صابر حسین راجپوت کے نام سے کہانیاں تراشتا۔ دلچسپ ترین امر یہ تھا کہ ان کے لاکھوں قارئین دو دہائیوں تک احمد یار خان اور صابر حسین راجپوت کے دیوانے رہے اور عنایت اللہ مرحوم کے جیتے جی وہ یہ نہ جان پائے کہ یہ ایک ہی شخصیت کے دوسرے روپ ہیں۔ عنایت اللہ مرحوم ایک خاموش ادبی طوفان تھے۔ ان دنوں وہ لاہور کے محلے گڑھی شاہو کی ایک تنگ و تاریک گلی میں کرائے کے مکان پر رہتے تھے۔ یہ مکان حاجی کے مکان کے نام سے مشہور تھا جو ایک ہو میوپیتھک ڈاکٹر تھے۔ ان کے داماد اردو ادب کے ایک صاحب طرز ادیب محمد منشا یاد تھے، وہ جب  کبھی بھی ان سے ملنے آتے، ایک جملہ ضرور کہتے تھے کہ رات کے جس بھی پہر آئو، اس گلی کے دو مکانوں کی مدہم روشنی جلتی نظر آتی ہے۔ ایک چوہدری انور ایڈووکیٹ کی اور دوسری عنایت اللہ کےگھر کی۔ صاحب طرز حقیقت نگار و افسانہ نگار ہونے کے  باوجود وہ تاعمر افسانہ نویسوں کی دنیا میں اجنبی رہے۔

اگر مجموعی طور پر ان کے ادبی کارہائے نمایاں کی بات کی جائے تو بلاشبہ وہ پہلی شخصیت ہیں جو اردو قارئین کو بدیسی کہانیوں کے چُنگل سے نکال کر حقیقی معاشرے کی تلخ حقیقی کہانیوں کی طرف لائے جو ان کی بہت بڑی کامیابی تھی۔ شرلاک ہولمز، جم کاربٹ اور نک ویلوٹ کے قصے پڑھنے والے صابر حسین راجپوت،  احمد یار خان اور عنایت اللہ کی داستانوں کے سحر میں مبتلا ہوگئے جس کا ایک ثبوت داستان ایمان فروشوں کی، بی آر بی بہتی رہے گی اور شمشیرِ بے نیام کا مسلسل تیسری نسل میں مقبول ہونا ہے

عنایت اللہ نے تا عمر قلم سے وفا کی۔ آپ صبح سویرے بعد از فجر حکایت کے دفتر تشریف لے آتے اور رات گئے تک مسلسل لکھتے رہتے۔ بے انتہا لکھنے اور مسلسل سگریٹ نوشی نے ان کو بہت نقصان پہنچایا۔ وہ پرانے زمانے کا سخت ترین سگریٹ برانڈ “کیمل” استعمال کیا کرتے تھے اور بے تحاشا سگریٹ پھونکا کرتے تھے۔ یہ سگریٹ برانڈ پورے لاہور میں صرف ایک دکان پر پایا جاتا تھا اور وہ بھی عنایت اللہ صاحب کی وجہ سے یہ سگریٹ منگوایا کرتے تھے۔ 1999ء کے آغاز میں عنایت اللہ فالج کے حملے کا شکار ہو کر  بستر نشین ہو گئے مگر تحریر سے اپنا ناطا تب بھی نہ توڑ سکے۔ عارف محمود ان کے پاس بیٹھ کر لکھا کرتے تھے اور وہ مسلسل لکھوایا کرتے تھے۔ آخر کار سال بھر کی طویل علالت کے بعد اردو ادب کا یہ بہترین تاریخی ناول نگار اور پاکستان کا اکلوتا جنگی وقائع نگار 16 نومبر، 1999ء کو لاہور میں عالم فانی سے عالم بقا کی طرف روانہ ہوا۔ مرحوم کی عمر 79 سال تھی۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ 16 نومبر سلطان صلاح الدین ایوبی کی بھی تاریخ وفات  تھی، جن کی زندگی کی داستان شجاعت لکھ کر عنایت اللہ نے لافانی شہرت حاصل کی تھی۔

عنایت اللہ مرحوم تا عمر اس مقام کو نہ پا سکے جس کے وہ حقیقی معنوں میں حقدار تھے مگر افسوس تو یہ ہے کہ بعد از وفات بھی کوئی ان کا نام لینے والا نہیں۔ ان کی وفات پر کوئی یادگاری مضمون، کوئی تعزیتی ریفرنس کوئی کالم کوئی خبر سامنے نہ آئی۔ جس طرح وہ اپنی زندگی میں ناقدین کے لیے غیر اہم رہے، مرنے کے بعد بھی غیر اہم رہے۔ تاہم اردو ادب کے قارئین کے لیے وہ ایک زندہ جاوید روایت کے امین بن گئے تھے۔ ان سے محبت رکھنے والے ساری دنیا میں پائے جاتے ہیں اور شمشیر بے نیام، داستان ایمان فروشوں کی اور بی آر بی بہتی رہے گی آج بھی پریوں کی سی داستان رکھتی ہیں۔



Categories:

Tags:

Comments are closed